حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کو نصیحت
حضرت نوح علیہ السلام نے قوم کو نصیحت کی کہ اللہ عزوجل کی عطا کو قبول کرو غور کرو کہ میں میں نہیں میں اپنی جان کے اعتبار سے مردہ ہوں لیکن محبوب کے ذریعے زندہ ہوں مجھے موت نہیں کیونکہ میں بشری حواس کے اعتبار سے مردہ ہوں اور اللہ عزوجل میرا کام اور احساس اور بینائی بن گیا ہے چونکہ میں "میں” نہیں ہوں تو یہ کلام اس کی جانب سے ہے اس کے مقابلے میں جو بات کرے گا وہ کافر ہوگا کی اس صورت میں شیر ذات خدا ہے اسی لیے لومڑی کے مقابلے میں دلیر نہ ہو۔
اگر حضرت نوح علیہ السلام کی مدد اللہ عزوجل کی جانب سے نہ ہوتی تو طوفان دنیا کو کس طرح درہم برہم کر سکتا تھا وہ ‘ما’ و ‘من’ سے گزر کر آگ کی مانند تھے اور دنیا کھلیان کی مانند جو شخص اسے چھپے ہوئے شیر کے سامنے بھیڑیے کی طرح بے ادبی سے زبان کھولے گا شیر اسے چیر پھاڑ دے گا کاش زخم جسم پر لگتا کی دل اور ایمان تو سلامت رہتے اب میں اصل راز کو ظاہر نہیں کر سکتا ہاں مگر اشارہ کر سکتا ہوں کہ شاید تم جان لو اس لومڑی کی طرح تم کھاؤ۔
اللہ عزوجل کے سامنے بہانے سے کام نہ لو وہ ملک کا مالک ہے یہ سلطنت اس کے حوالے کر دو سیدھے راستے پر فقیر بن کر آجاؤ تو شیر بھی اور اس کا شکار بھی تمہارا مال ہے اس کا فرمان ہے کہ کیا خدا اپنے بندے کے لیے کافی نہیں جو خدا پر بھروسہ کرتا ہے وہ اپنے ساتھ بھلائی کرتا ہے۔اللہ عزوجل کو کوئی لالچ نہیں دنیا کی ہر شے مخلوق کے لیے ہے ملک اور دولت اللہ عزوجل کے کس کام کی ہیں۔
اللہ عزوجل کے سامنے دل کی حفاظت رکھو اور وہ راز فکر اور طلب کو اسی طرح دیکھ لیتا ہے جس طرح دودھ میں بال نظر آجاتا ہے جو شخص بے نقش اور صاف سینہ رکھتا ہوگا وہ غیب کے نقش کا آئینہ ہوتا ہے۔
مومن مومن کا آئینہ ہوتا ہے پس تو بھی مومن ہے اور وہ بھی مومن ہے تو اس کا آئینہ بن جا دونوں مومن ہیں مگر دونوں میں فرق بے شمار ہے جب وہ ہمارے اعمال کو کسوٹی پر رکھتا ہے تو یقین کر شخص سے جدا کر دیتا ہے مومن کامل کے قلب پر دوسرے مومنو کا عکس نظر آتا ہے۔
وجہ بیان
مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ یہ شکایت میں حضرت نوح علیہ السلام کی اپنی قوم کو کی گئی نصیحت بیان فرماتے ہیں حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت کی کہ وہ اللہ عزوجل کی عطا کو قبول کر لیں اور اللہ عزوجل ہر شے سے بے نیاز ہے جب ہم اپنے تمام معاملات اللہ عزوجل کے سپرد کر دیں گے تو پھر ہماری ظاہری حیثیت ختم ہو جائے گی اور پھر تم دنیاوی اعتبار سے مردہ مگر اخروی اعتبار سے زندہ رہو گے۔