حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا دسترخوان
اس کائنات سے یہ حقیقت بیان کرنا مقصود ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء اللہ رحمۃ اللہ علیہم کے حکم سےآگ پانی کا کام کرتی ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانسار صحابی حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک کے گھر ایک شخص مہمان بن کر آیا اس شخص کا بیان ہے کہآاپ کا دسترخوان چکنائی وغیرہ کی وجہ سے میلا ہو گیا آپ نے اپنی کنیز کو حکم دیا کی اس دسترخوان کہ جلنے کا منتظر تھا۔
کچھ دیر بعد اس دسترخوان کو تنور سے نکالا گیا تو اس کی میل کچیل سب ختم ہو چکی تھی اور وہ نکھر چکا تھا آپ سے جب اس بارے میں دریافت کیا گیا کہ یہ دسترخوان تنور میں کیوں نہیں جلا تو آپ نے فرمایا: کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دسترخوان سے اپنے ہاتھ اور منہ پوچھا تھا اس کے بعد سے اس پر آگ اثر نہیں کرتی۔
بس اے نیک شخص! اگر ایک بے جان کو نبی کا قرب حاصل ہونے پر یہ فضیلت حاصل ہو گئی تو عاشق کو کیا کچھ نہیں ملے گا؟
اگر کعبے کو اینٹ اور پتھر کا ہونے کی وجہ سے ایسا مقام مل گیا تو انسان کو اس سے زیادہ شرافت عطا ہو سکتی ہے۔اس مہمان نے حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک کی کنیز سے پوچھا: کہ وہ تو اس حقیقت سے واقف تھے تو نے بغیر سوچے سمجھے اسے آگ میں کیوں ڈال دیا۔
اس کنیز نے جواب دیا کہ میں نے یہ سمجھ کر اسے آگ میں ڈال دیا کہ آپ غلط نہیں دے سکتے میں اللہ عزوجل کے نیک بندوں سے امید رکھتی ہوں پھر یہ کپڑا کیا حیثیت رکھتا ہے اگر آپ مجھے حکم دیں کہ میں آگ میں خود جاؤں تو میں کامل یقین کے ساتھ اس آگ میں کود جاؤں گی۔
پس اے دوست! مردوں کا اعتقاد اس خادمہ سے کم نہیں ہونا چاہیے کہ مرد کا دل اگر اس خادمہ سے کم درجے پر ہے تو وہ دل نہیں ہے بلکہ اس کا پیٹ ہے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے دسترخوان کا واقعہ بیان فرما رہے ہیں جو اس وجہ سے آگ میں ڈالنے سے نہیں جلتا تھا کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ہاتھ پہنچے تھے اگر دسترخوان کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کی وجہ سے اگ نہیں جلا سکتی تو پھر ان مومنوں کو آگ کیسے جلائے گی جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہو گئے۔