حدیث حب وطن کا بیان
حدیث حب وطن میں وارد وطن سے مراد آخرت ہے نہ کی دنیا دنیا کا مطلب وطن جان کر دھوکہ ہرگز نہ کھانا ہر دنیا کا ایک محل ہے اس کو غلط مقام پر استعمال نہ کرنا اسی طرح جب وطن کو غلط مقام پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
بزرگان دین وضو کرتے وقت ہر عضو کو دھوتے ہیں اور خاص دعا پڑھتے ہیں جب وہ ناک میں پانی ڈالتے ہیں تو دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں جنت کی خوشبو سنبھا دے پھول کی خوشبو چمن کے لیے رہنما ہے اور اسی طرح جنت کی خوشبو جنت کی رہنما ہے پاکانہ سے نکلتے وقت دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ !نجاست ظاہر کا ازالہ تو مجھ سے ممکن تھا وہ میں نے کر لیا اور باطنی نجاست صرف تو ہی پاک کر سکتا ہے یہ اللہ عزوجل کی قدرت ممکن ہے کہ وہ روح کو پاک کر دے۔
انسان کا مقدر یہی ہے کہ وہ نجاست ظاہری سے پاکی حاصل کرے نجاست ظاہری کی حد سے آگے پاکی اللہ عزوجل کے دست قدرت میں ہے ایک آدمی نے استنجے کے وقت وہ دعا پڑھی جو ناک میں پانی ڈالتے وقت کی ہے۔جس طرح یہ دعا بے محل ہے اسی طرح یہ بات بھی بے محل ہے کہ انسان احمقوں کی مانند ان کے سامنے تواضع برتتے اور اللہ عزوجل کی برگزیدہ بندوں سے بغض رکھے۔
یاد رکھو کہ انسان کی الٹی چالیں اس کی رفعت اور بلندی کی مانند ہیں پھول کی خوشبو دماغ کے لیے ہے اور پاخانے کے سوراخ سے جنت کی خوشبو محسوس نہیں کی جا سکتی اسی طرح وطن کی محبت درست ہے مگر پہلے وطن کی پہچان ضروری ہے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ شکایت میں حدیث حب وطن کی تفسیر بیان کر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کسی بھی حدیث کو اس کے صحیح مفہوم اور صحیح مقام پر بیان کرنا چاہیے اور کسی بھی حدیث کو بیان کرنے سے قبل اس کے سیاق و سباق اور مفہوم پر غور کرنا لازم ہے۔