ہر خوبی باطن کی ہوتی ہے
اے کم !عقل یاد رکھ کی ہر خوبی باطن کی ہوتی ہے نہ کہ ظاہر کی تو اندھا ہے جو اپنی حماقت سے کہتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ جس مجھے حقیر ہے وہ سلیمان علیہ السلام جیسا ہے اور فکر وہ خیال جو انکھ سے بھی افضل ہے وہ تیرے لیے معمولی چونٹی کی طرح ہے تجھے جیسے ظاہر بین کے آگے پہاڑ بڑا ہے اسی لیے تو بہترین شے یعنی ارادہ کو بھیڑیے سے تشبیہ دیتا ہے اور پہاڑ کو بھیڑیا سے تیری ظاہر بنی کی وجہ سے یہ جہان تیری نظر میں خوفناک اور بڑا ہے۔
اے کم عقل! اے بے علم! اپنی حماقت پر تو پتھر کی طرح غافل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تجھ میں آدمی کی خصلت یعنی نور انسانیت نہیں ہے تو ایک جہل مطلق ہے اور خدا کی بو تجھ میں ذرا برابر بھی نہیں۔
اے کم عقل! تو اپنی بے وقوفی سے اس ہستی کو جو مثل سائے کی سی ہے ایک وجود حقیقی سمجھتا ہے اسی لیے تیرے نزدیک وجود باری تعالی ایک کھیل اور بے دقعت شے ہے اپنی چشم بصیرت سے دیکھ اور غور کر کی آگ عالم غیب کا ایک نمونہ ہے جو لطیف اور ہوا کی طرح نظروں سے غائب ہے جب یہ تک یہ کی کسی کہتیف جس میں نہ لگے تب تک آہ کو اس لطیف شے کا پتہ نہیں چلتا پھر جب یہ اپنی تاثیر میں پڑ جاتی ہے تو ہزاروں طیشوں تلواروں اور تیر سے وہ کام نہیں بنتا جو یہ کر گزرتی ہے۔اگر تم اس حقیقی زندگی میں چشم بنا سے کام نہیں لیتے تو پھر بروز محشر تک رکے رہو گے جب فکر و خیال حق اور ارادہ الہی کی تاثرات کھلم کھلا ظاہر ہوں گی یہ وہ دن ہوگا جب پہاڑ نرم اون کی مانند ہوں گے اور یہ ظاہر دنیا تباہ و برباد ہو جائے گی اس وقت اللہ عزوجل کے علاوہ سوا نہ کوئی وجود دیکھو گے نہ آسمان نہ ستارے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ یہ حکایت میں فرماتے ہیں کہ ہر خوبی باطن کی ہوتی ہے اور انسان اپنی حماقتوں کی بدولت اس حقیقت سے بے خبر ہے اگر تم اس حقیقت سے بے خبر رہو گے تو پھر یقینا بروز محشر ذلیل و رسوا ہو گے۔
اللہ عزوجل کی بنائی گئی چیزوں میں غور و فکر کرو پھر ہی تم اسے پہچان سکو گے جب بروز محشر یہ اسرار تم پر کھلیں گے تو پھر یہ ظاہری دنیا ختم ہو چکی ہوگی اور پھر تم اسباب کے بغیر اللہ عزوجل کو دیکھو گے اور اس دن کسی دوسری شے کا وجود نہ ہوگا۔