اگر اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہو تو ایاز کی مانند بروقت کر لو
ایاز کے مخالفین کو اس کے حجرہ میں جانے کی حقیقت کا علم نہ تھا انہوں نے اسی وجہ سے ایاز پر الزام لگایا۔
حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ میرا غیب پر ایمان اس درجے کا ہے کہ اگر غیب کے پردے ہٹا دیے جائیں تو میرے یقین میں کوئی اضافہ نہ ہوگا کیوں کہ میں ایمان اور یقین کے آخری درجے پر ہوں۔
انسان دوسروں کو اپنا جیسا سمجھتا ہے اور جیسا خود ہوتا ہے ویسا ہی دوسروں کو سمجھتا ہے اگر کسی کا قد ٹیڑھا ہے تو یقینا اس کا سایہ بھی ٹیڑھا ہوگا۔
اگر اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہو تو ایاز کی مانند بروقت اصلاح کر لو اور اس نے دنیاوی زندگی سے ہرگز دھوکہ نہ کھایا دنیا دار توبہ کا صحیح وقت نہیں پہچانتے اسی لیے ایسے وقت میں توبہ کرتے ہیں جب اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا جو شخص خود غلطی میں مبتلا ہے وہ دوسروں کو غلطی پر نہ جانے بدگمان انسان اپنے اعمال نامی کو دوسرے کا اعمال نامہ سمجھ کر پڑھتا ہے۔
ایاز کی شکایت کرنے والے عمرہ درحقیقت خود مکار تھے اور انہوں نے ایاز کو بھی مکار جانا سلطان اس کی پاکیزگی سے واقف تھا اسی لیے اس نے عمرہ کو رات کے وقت اس کا حجرہ کھولنے کی اجازت دی۔
سلطان کو اس بات کی پریشانی تھی کہ اس کے مخلص ایاز کو اس کی خبر ہو گئی کہ میں نے بدگمانی کی بنیاد پر اس کے حجرے کی تراشی کا حکم دیا ہے تو اس کو شدید رنج پہنچے گا۔سلطان یہ بھی جانتا تھا کہ ایاز بدگمان نہیں ہوگا بلکہ وہ یہی سمجھے گا کہ اس کے مخالفین پر حقیقت واضح کرنے کے لیے میں نے ایسا حکم دیا ہے مصیبت زدہ جب اپنی مصیبت کی کوئی بہتر توجیہا تلاش کر لیتا ہے تو رنج و غم میں شکست خوردہ نہیں ہوتا۔
سلطان نے سوچا: کہ ایاز اپنے خلوص کی وجہ سے اس واقعے کو کوئی بہتر توجیح تلاش کر لے گا میں اگر ازمائش کی سو تلواریں بھی اسے ماروں گا تو اس کا خلوص پھر بھی کم نہ ہوگا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرا اس کو تلوار مارنا درحقیقت خود کو تلوار مارنا ہے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں سلطان محمود غزنوی کے مشیر ایاز کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ حاسدین نے سلطان محمود غزنوی کو بھڑکایا کی ایاز اپنے حجرے میں مال جمع کرتا ہے
سلطان محمود غزنوی کو ایاز پر اعتماد تھا اور اس نے اسی اعتماد پر حاسدین سے کہا کہ وہ اس کے حجرے میں تلاشی لیں جب ان حاسدین نے تلاشی لی تو انہیں ما سوائے شرمندگی کے کچھ نہ ملا پس یاد رکھو کہ حسد رسوا کرنے والا ہے اور یہ انسان کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح دیمک لکڑی کو کھا جاتی ہے۔
خوشبو صرف عود کی لکڑی سے نہیں آتی بلکہ اسے آگ پر رکھنے سے خوشبو پھیلتی ہے