ایک درویش کا قصہ
ایک درویش ایک جنگل میں سفر کر رہا تھا اس نے ایک لنگڑی لومڑی کو دیکھا جو بے بسی کی چلتی پھرتی تصویر تھی اس درویش کے دل میں خیال آیا کہ اس لومڑی کے رزق کا انتظام کیسے ہوتا ہوگا جبکہ یہ شکار کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں۔
درویش ابھی یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے ایک شیر کو دیکھا جو منہ میں گیدڑ دبائے اس لومڑی کے نزدیک آیا اس نے گیدڑ کے گوشت کا کچھ حصہ کھایا اور باقی وہیں چھوڑ کر چلا گیا لومڑی نے اس باقی کے گوشت میں سے کھایا اور اپنا پیٹ بھرا۔
درویش نے جب سارا ماجرہ دیکھا تو اسے اتفاق قرار دیا اور یہ کہنے کے لیے کہ یہ لومڑی دوبارہ اپنا پیٹ کیسے بھرے گی وہیں قیام کیا اگلے روز بھی وہی شیر منہ میں گیدر دبائے اس جگہ آیا اور اس نے کچھ گوشت کھانے کے بعد باقی ویسے ہی چھوڑ دیا۔لومڑی نے وہ باقی گوشت کھا لیا اور اپنا پیٹ بھر لیا درویش سمجھ گیا کہ اس کے رزق پہنچانے کا انتظام اللہ کی طرف سے ہے اس نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ میں بھی اب اپنے رزق کے لیے کوئی جستجو نہیں کروں گا اور میرا رزق اللہ ذوال مجھے خود پہنچا دے گا جس طرح لومڑی کو شیر کے ذریعے رزق پہنچاتا رہا ہے۔
درویش یہ فیصلہ کرنے کے بعد ایک جگہ جا کر مطمئن ہو کر بیٹھ گیا اسے یقین تھا کہ اس کا رزق بھی اسے پہنچ جائے گا مگر کئی دن گزر گئے اس کے لیے کھانے کی کوئی شے نہ آئی یہاں تک کہ وہ کمزوری کی انتہا کو پہنچ گیا اس دوران اس نے نزدیک ایک مسجد کے محراب سے یہ آواز آئی کہ اے درویش کیا تو لنگڑی لومڑی بننا چاہتا ہے یا پھر شیر جو اپنا شکار خود کرتا ہے جس میں سے خود بھی کھاتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلاتا ہے۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ شکایت میں ایک درویش کا قصہ بیان کر رہے ہیں جس نے جنگل میں ایک لومڑی لنگڑی کو دیکھا جو شعر کے بچے ہوئے شکار کو کھا کر اپنا گزارا کرتی تھی اس درویش نے سوچا جب اس لومڑی کے رزق کا یہ انتظام ہے تو میں بھی ایک جگہ بیٹھ جاتا ہوں میرا رزق بھی مجھے مل جائے گا۔
پھر اس درویش کو مسجد کے محراب سے آواز آئی کیا تو لنگڑی لومڑی بننا چاہتا ہے یہ پھر شیر جو شکار کر کے خود دکھاتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلاتا ہے بس یاد رکھو کہ اللہ عزوجل نے جب رزق دینے کا وعدہ کیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ تمہیں بغیر جستجو کے مل جائے پہلے جستجو کرو پھر اس رب سے امید رکھو کہ وہ تمہارے رزق کا بہتر انتظام کرنے والا ہے۔