اگر مخلوق کی جانب سے کوئی تکلیف آئے تو پریشان نہ ہو
ایران کے ایک شہر نیشاپور اور افغانستان کے ایک شہر ہرات کے درمیان ایک علاقہ تھا جہاں کے بادشاہ کو اپنے ایک وزیر جو کی شریف النفس اور ظاہر و باطن میں بادشاہ کا خیر خواہ تھا اس کی کوئی حرکت اچھی نہ لگی۔
بادشاہ نے اس وزیر کو جرمانہ کیا اور اسے سزا بھی دی بادشاہ کے تمام وزیر اور مشیر اس وزیر کے متعلق جانتے تھے اور اس کے احسانات سے بھی واقف تھے اس کے ساتھ نہایت نرمی کا برتاؤ کرتے رہے اور اسے سزا تو دور کی بات کبھی جھڑکا بھی نہیں۔
اگر دشمن سے صلح کرنا چاہتے ہو تو کبھی پیٹھ کے پیچھے وہ برائی بھی کرے تو اس کے سامنے اس کی تعریف کرو اور اگر وہ کڑوی بات منہ سے نکالتا ہے جس کا نقصان بھی ہے اور تم اس کی وہ کڑوی بات سننا نہیں چاہتے تو اس کے منہ کو اپنی بات سے میٹھا کر دو۔
بادشاہ کی جانب سے لگائے گئے کچھ الزامات سے وہ وزیر بری ہو گیا مگر کچھ الزامات ابھی ایسے تھے جن کی سزا اسے دی گئی اور اسے قید خانے میں قید کر دیا گیا۔
اس وزیر کو کسی دوسرے ملک کے بادشاہ نے خفیہ خط لکھا کہ تیرے ملک کے بادشاہ نے تیری قدر نہ کی اگر تو بہتر جانے تو ہماری جانب دیکھ ہم تجھے سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور وہ عزت دیں گے جس کا تو حقدار ہے ہم تیری امد کے منتظر ہیں اور ہمیں اس خط کا جواب جلدی دینا۔
وزیر نے وہ خط پڑھا تو اسے خطرے کا احساس ہوا اس نے کاغذ کی پشت پر مختصر جواب لکھ کر وہ خط لانے والے کے خط واپس بھیج دیا کہ اگر اس خط کے متعلق بادشاہ کو علم ہو گیا تو کوئی فتنہ نہ اٹھ کھڑا ہو۔
متعلقین میں سے کچھ لوگوں نے اس بات کی خبر بادشاہ کو کر دی کہ اس وزیر نے دوسرے ملک کے بادشاہوں سے خط و کتابت شروع کر دی ہے۔
بادشاہ کو غصہ آگیا اور اس نے انکوائری شروع کر وادی ان قاصدوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا جو وہ خط لے کر آئے تھے جب اس خط اور وزیر کے جواب کو پڑھا گیا تو وزیر کا جواب لکھا تھا کہ آپ کا حسن زن میری حیثیت سے زیادہ ہو گیا ہے میرے لیے آپ کی اس پیشکش کو قبول کرنا ممکن نہیں۔
کیوں کی میں ساری زندگی اسی بادشاہ کے ٹکڑوں پر پلا ہوں اگر ان کے دل میں میرے لیے کوئی معمولی رنجش بھی پیدا ہو گئی ہے تو میں ان کی گزشتہ تمام نعمتوں کو کیسے بھلا سکتا ہوں اور ان سے کس طرح اتنی بڑی بے وفائی کر سکتا ہوں جو ساری زندگی مجھ پر مہربان رہا اگر وہ مجھ پر سخت بھی ہو گیا تو کوئی بات نہیں۔
بادشاہ نے جب اس وزیر کا جواب پڑھا تو بہت خوش ہوا اور اسے قید خانے سے رہائی دلوا کر انعام و اکرام سے نوازا اور معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تیرے ساتھ خواہ مخواہ ظلم کیا۔وزیر نے کہا کہ اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں تھا میری قسمت میں ایسا ہی لکھا تھا کہ مجھے کچھ تکلیف پہنچے یہ اچھا ہے کہ وہ تکلیف آپ کے ذریعے سے آئی اور آپ کے مجھ پر احسانات بے شمار ہیں۔
داناؤں کا قول ہے کہ اگر مخلوق کی جانب سے کوئی تکلیف آئے تو پریشان نہ ہو اس لیے کہ مخلوق سے راحت نہیں پہنچتی دشمن اور دوست کا فرق اللہ سے جانو کیوں کی دونوں کے دلوں سے اللہ واقف ہے تیرا اگرچہ کمال سے ہی نکلتا ہے مگر عقل مند اسے چلانے والے کی جانب ہی سمجھے گا۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک وزیر کا قصہ بیان کرتے ہیں جس سے بادشاہ وقت ناراض ہو گیا اور اسے قید خانے میں ڈال دیا ایک دوسرے ملک کے بادشاہ نے اس وزیر کو خط لکھا کہ وہ اس کی قدر کرتے ہیں اور اگر وہ اس خط کا جواب مثبت دے تو وہ اس کی رہائی کے لیے کچھ کر سکتا ہے۔
وزیر نے اس بادشاہ کو انکار کر دیا جب وہ اس کے اپنے بادشاہ کو خبر ہوئی تو اس نے اس وزیر سے اس خط کے متعلق پوچھا تو وزیر نے کہا کہ وہ اس کے ٹکڑوں پر پلا ہے وہ نمک حرامی نہیں کر سکتا اگر اس کی جانب سے اسے کوئی تکلیف بھی آئی ہے تو وہ اسے ہنسی خوشی برداشت کر لے گا۔
بادشاہ اس کی بات سے خوش ہوا اور اسے قید خانے سے رہا کرنے کا حکم دیا پس یاد رکھو کہ جس سے تمہیں آرام مہیا کرائے اگر اس کی جانب سے کچھ تکلیف بھی آجائے تو تم سب کرو کہ اس کے احسانات کا بدلہ یہی ہے۔
اللہ عزوجل صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور جب وہ تمہیں اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے تو ان میں سے کچھ کے واپس لینے پر تم سب کرو کہ ہو سکتا ہے وہ تم یہ تمہاری آزمائش ہو اور اس آزمائش پر صبر کرنے کی وجہ سے تم کسی بڑے انعام کے حقدار بن جاؤ۔