اللہ عزوجل کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں
ایک پورا شخص صبح کے وقت بھیک مانگنے نکلا اور ایک مسجد کا کھلا دروازہ دیکھ کر اس نے صدا لگانی شروع کر دی کہ کوئی جو اس بوڑھے کو خیرات دے ایک شخص نے اسے دیکھا تو کہا کہ اے احمق یہاں کوئی نہیں رہتا جو تجھے خیرات دے۔
اس بوڑھے شخص نے دریافت کیا کہ یہ کس کا گھر ہے وہ شخص کہنے لگا کہ یہ اللہ کا گھر ہے یہ سن کر اس بوڑھے پر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی اور وہ کہنے لگا کہ اگر یہ اللہ کا گھر ہے تو اسے چھوڑ کر آگے جانا بے وقوفی ہے اور یہاں سے خالی ہاتھ لوٹنا اس سے بھی بڑی بے وقوفی ہے۔
میں تو اج تک کبھی اللہ عزوجل کے کسی بندے کے در سے خالی نہیں لوٹا تو پھر اس رب کی گھر سے خالی ہاتھ کیسے لوٹ سکتا ہوں میں تو اس وقت تک صدا لگاتا رہوں گا جب تک میرا دامن مرادوں سے بھر نہیں جاتا۔
یہ کہنے کے بعد وہ بوڑھا شخص مسجد کے دروازے پر بیٹھ گیا اور ایک سال تک وہیں بیٹھا صدا لگاتا رہا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ کمزوری کا غلبہ اس پر چھانے لگا ایک دن ایسی حالت میں اس کا دل ڈوب رہا تھا۔کہ ایک شخص چراغ ہاتھ میں لیے اس کے پاس آیا اور ابھی اس بوڑھے میں زندگی کے کچھ رمک باقی تھی اور وہ خوش ہو کر کہہ رہا تھا کہ جس نے بھی سخی کا دروازہ کھٹکھٹایا وہ کبھی مایوس نہیں ہوا البتہ شرط صرف اتنی ہے کہ سوالی کا صابر و شاکر ہونا ضروری ہے۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک بوڑھے شخص کا واقعہ بیان کرتے ہیں جس نے مسجد کا دروازہ کھلا دیکھ کر صدا لگائی اور پھر ایک شخص نے اس سے کہا کہ اے اللہ کا گھر ہے اس نے سنا تو اس پر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی اور اس نے کہا کہ پھر اس گھر کو چھوڑ کر جانا بے وقوفی ہے۔
اور پھر وہ ایک سال تک اس مسجد کے دروازے پر بیٹھا رہا ایک سال بعد اس کے پاس ایک شخص ایا تو وہ بوڑھا سدا لگا رہا تھا کہ سخی کے در سے کوئی مایوس نہیں لوٹتا پس سوالی کا صابر و شاکر ہونا لازم ہے۔
پس یاد رہے کہ اللہ عزوجل کی سنت ہے کہ وہ کسی کو ازمائش کے بغیر انعام و اکرام سے نہیں نوازتا شرط صرف صابر و شاکر اور استقامت کی ہے اور داناؤں کا قول ہے کہ اللہ عزوجل کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔