تم بروز قیامت مجھ پر جنت کا دروازہ بند نہیں کرو گے
ایک عادل اور خدا ترس بادشاہ اپنی رعایا کی حالات سے آگاہی کے لیے رات کو بھیس بدل کر گشت کرتا تھا ایک دن وہ ایک مسجد کے پاس سے گزرا تو اس نے دو درویشوں کو دیکھا جو سردی میں کانپ رہے تھے بادشاہ ان کے حالات سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے وہاں رک گیا۔
ایک درویش نے دوسرے سے کہا کہ اگر قیامت کے دن اللہ عزوجل نے بادشاہوں کو بھی بخش دیا تو میں اپنی قبر سے باہر نکلنے سے انکار کر دوں گا یہ کیسا انصاف ہوا کہ دنیا میں بھی وہ عیش کریں اور آخرت کی زندگی میں بھی وہ جنت کے حقدار بن جائیں۔
میں حقیقتا کہتا ہوں کہ اگر ہمارے ملک کا بادشاہ جو کی صالح کہلاتا ہے اگر جنت کی دیوار کے نزدیک بھی آیا تو میں جوتے مار مار کر اس کا بھیجا پلپلا کر دوں گا۔
بادشاہ نے ان سردی سے کانپتے درویشوں کی گفتگو سنی تو وہاں سے لوٹ آیا اور آگلے دن اس نے پیادے بھیج کر ان درویشوں کو دربار میں بلایا اور انہیں انعام و اکرام سے نوازا اور ان کی عزت آفزائی کی۔وہ درویش اس حسن سلوک پر حیران تھے ایک درویش سے رہا نہ گیا تو اس نے بادشاہ سے اس حسن سلوک کے متعلق رازداری سے دریافت کیا کہ ان کے ساتھ اس عزت افزائی سے پیش آنے اور انہیں انعام و اکرام سے نوازنے کی کیا خاص وجہ ہے۔
بادشاہ نے جب درویش کی بات سنی تو مسکرا دیا اور کہنے لگا کہ میں مغرور نہیں ہوں اور نہ ہی ان لوگوں میں سے ہوں جو مسکینوں کے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تمہیں یہ خیال اپنے دل سے نکال دینا چاہیے کہ تم قیامت کے دن میرے مخالف ہو گئے میں نے اس دنیا میں تم سے صلح کر لی اب امید ہے کہ تم بروز قیامت مجھ پر جنت کا دروازہ بند نہیں کرو گے۔
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے صاحب اقتدار تجھے چاہیے کہ تو بھی درویشوں کی خدمت کر اور اس صلہ کا مستحق ہو جا تجھ پر جنت واجب ہو جائے گی جو درویشوں کی خدمت کرے گا وہی جنت کے میوے جات کا حقدار ہوگا۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک خدا ترس بادشاہ کا قصہ بیان کرتے ہیں جس نے کچھ درویشوں کی گفتگو سنی جو سردی میں کانپ رہے تھے اور بادشاہ کو برا بھلا کہہ رہے تھے اس بادشاہ نے انہیں انعام و اکرام سے نوازا اور کہا کہ تم بروز قیامت مجھ پر جنت کا دروازہ بند نہیں کرو گے۔
پس یاد رہے کی بہترین حکمران وہی ہے جو اقتدار میں رہتے ہوئے لوگوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہو اور ان کے مسائل حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور اگر اللہ عزوجل نے کسی کو کسی پر حاکم بنایا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے محکوم کی عنانت کرے اور اس کی دل جوئی میں کسی قسم کی کسر نہ رہنے دے۔