darvesh ki dua se aankhon ki binai laut aai

درویش کی دعا سے نابینا کی آنکھوں کی بینائی لوٹ آئی

زمانے کے ظلم و ستم کا ستایا ہوا ایک درویش کسی امیر کے دروازے پر چلا گیا اور صدا لگائی وہ امیر پرے درجے کا کنجوس اور مغرور تھا اس نے درویش کی صدا سنی تو بجائے اس کی کوئی مدد کرنے یا اسے کچھ خیرات دینے کے اسے جھڑکنا شروع ہو گیا اس امیر شخص کے ہمسایہ میں ایک غریب نابینا شخص رہتا تھا۔

وہ درویش اس امیر کے دروازے سے مایوسی کی حالت میں پلٹا تو اس نابینا شخص نے اسے اپنا مہمان بنا لیا اور جو کچھ اس سے ممکن ہو سکتا تھا وہ درویش کی خدمت میں پیش کر دیا

اور اس درویش کے ساتھ نہایت عمدہ اخلاق اور مروت کے ساتھ پیش آیا درویش اس نابینہ شخص کے اس حسن سلوک سے بے حد متاثر ہوا اور اس کی بھلائی کی دعا کر کے وہاں سے چلا گیا۔.

نابینہ شخص نے اس درویش کے ساتھ یہ سلوک کسی لالچ میں آکر نہیں کیا تھا بلکہ یہ اس کی خدا ترسی تھی ایک وقت کا کھانا کھانا کوئی ایسی بڑی بات نہ تھی لیکن اللہ عزوجل کو اس کی یہ نیکی بے حد پسند آئی اور اس کے حق میں درویش کی دعا قبول ہوئی۔

اس نابینا کی آنکھوں کی روشنی لوٹ آئی اور اس کی آنکھوں سے پانی کے چند قطرے ٹپکے جس سے اس کی آنکھیں روشن ہو گئیں جب شہر کے لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو وہ حیران رہ گئے اور کچھ ہی دیر میں درویش کی کرامت کا شہرہ سارے شہر میں ہو گیا۔درویش کی دعا سے نابینا کی آنکھوں کی بینائی لوٹ آئیجب اس بات کا علم اس مغرور امیر کو ہوا تو وہ حسرت سے اپنے ہاتھ ملنا شروع ہو گیا اور کہنے لگا کہ افسوس یہ شہباز تو میرا تھا جو اس نابینہ کے جال میں پھنس گیا یہ نعمت تو میرے لیے تھی جو اسے مل گئی اس نابینہ ہمسائے نے جب اس مغرور امیر کی بات سنی تو کہا کہ یہ شہباز تجھے کیسے مل سکتا تھا جو حریص چوہے کی طرح دانت نہ کوسے ہوئے ہیں۔

وجہ بیان

حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ شکایت میں ایک درویش کی کرامت بیان کرتے ہیں جو کسی امیر کے دروازے پر گیا تو اس نے اسے دھتکار دیا پھر جب وہ درویش ایک نابینا شخص کا مہمان ہوا اور اس نابینہ شخص نے اس درویش کی خدمت کی تو درویش نے دعا کی اور اس نابینہ کی آنکھوں کی بینائی لوٹائی۔

جب اس امیر شخص کو علم ہوا تو وہ پچھتانے لگا کہ یہ نعمت تو میرے لیے تھی بس یاد رکھنا چاہیے کہ بھلائی کے کاموں کو اختیار کرنے میں سبقت حاصل کرو اور جب کوئی اللہ عزوجل کا نیک بندہ تمہارے در پہ آئے تو اس کے ساتھ نہایت عزت و احترام سے پیش آؤ۔

اور اس کی خاطر مدارت میں کوئی کمی نہ رہنے دو کہ وہ بارگاہ الہی میں مقبول ہے اور ہو سکتا ہے کہ تمہیں بھی وہ اس کی بارگاہ میں مقبول بنا دے۔

حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کی توبہ

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔